haid786: میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں میں حادثہ ہوں ، اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں۔ قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں میں نیم مردہ ، اسیر انساں کا قہقہہ ہوں میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں۔ میں ایسا سر ہوں جو دشت_ غربت میں کٹ گیا تھا ۔ میں سربریدہ شہید، لاشوں میں رہ چکا ہوں میں راجا گ69 months ago