Comments on post titled دل کی ویرانی نہیں جاتی
یہ آفتِ نگہانی نہیں جاتی
دل کی مرضی کہ دل کی مرضی چلے
دل کی ہر بات بھی تو مانی نہیں جاتی
یہ ماجرا تیرے جانے کے بعد ہوا کہ
شکل مجھ سے اپنی پہچانی نہیں جاتی
دل سے دل کا ربط ضروری ہے وگرنہ
دل کی حالت تو جانی نہیں جاتی
وہ ترکِ تعلق پر راضی ہو کیسے گیا
اس بات کی حیرانی نہیں جاتی
خود سے نکالا اُسے جہاں تک مُمکن تھا
اب دل سے تو وہ دیوانی نہیں جاتی
محبت بلا ہے مصیبت ہے یہ آفت ہے
اور آسانی سے آفت آسمانی نہیں جاتی
یوں تو بھر گئے وقت کے ساتھ زخم،لیکن
زندگی سے اک یاد پُرانی نہیں جاتی (updated 71 months ago) | Damadam