Comments on post titled اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
دل میں رہتا تھا مگر خون میں جاری تو نہ تھا
نبض چلتی ہے تو قدموں کی صدا آتی ہے
اس قدر زخم جدائی کبھی کاری تو نہ تھا
وہ تو بادل کا برسنا ہے عناصر کا اصول
ورنہ اشکوں کا نمک آنکھ پہ بھاری تو نہ تھا
دل میں کھلتے ہیں تری یاد کے اعجاز سے پھول
اس میں کچھ شائبۂ باد بہاری تو نہ تھا
یہ بھی اندر کا کوئی روگ ہے ورنہ ہم کو
عمر بھر حوصلۂ نالہ و زاری تو نہ تھا | Damadam