Comments on post titled سب طرح کے حالات کو امکان میں رکھا
ہر لمحہ اسے سوچ میں وجدان میں رکھا
ہجرت کی گھڑی ہم نے تیرے خط کے علاوہ
بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا
مجھ کو مری قامت کے مطابق بھی جگہ دی
یہ پھول اٹھا کر کبھی گلدان میں رکھا ؟؟
اک عمر گزاری نئے آہنگ سے لیکن
اجداد کی اقدار کو بھی دھیان میں رکھا
اک روز سیاہ رات ہتھیلی پہ سجا کر
صحرا نے قدم خطہء گنجان میں رکھا
ہونٹوں کو سدا رکھا تبسم سے عبارت
اک زہر بجھا تیر بھی مسکان میں رکھا
شاعر : افتخار شفیع (updated 68 months ago) | Damadam