Comments on post titled سرخاب کیا خریدے اسباب کیا خریدے
فطرت فقیر جس کی القاب کیا خریدے
لے جا انہیں اٹھا کر , سودا نہیں ہے ممکن
جس آنکھ میں نہ نیندیں, وہ خواب کیا خریدے
بے کار اشک لے کر صحرا گیا تھا مجنوں
جو بوند کو ترستا سیلاب کیا خریدے
بازار ہے یہ دنیا، ہر شے پہ جی یہ آئے
اک کشمکش عجب ہے، بے تاب کیا خریدے
مانا زمیں ہے تیری پر سوچ لے تو ناداں
جب آسماں نہ تیرا مہتاب کیا خریدے
عادت، چلن، طریقے، یہ عشق خاک بدلے
جاہل ہو جو ازل کا آداب کیا خریدے
ابرک سمندروں کی کیا منتیں کرے تو
ساحل تجھے ڈبوئے گرداب کیا خریدے (updated 61 months ago) | Damadam