Comments on post titled ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں
خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں
دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں
پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں
اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں
ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں
ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں
دعوئ خوش سخنی خیرؔ ابھی زیب نہیں
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں | Damadam