Comments on post titled مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا
سفر ہی شرط ہے تو پھر عروج کیا زوال کیا
فراق ساعتوں کے زخم روح تک پہنچ چکے
میسر آئیں بھی تو اب مساعیٔ وصال کیا
ہنر کو دھوپ جنگلوں کی مسکراہٹوں میں ہے
گلاب بستیوں میں ہنستے رہنے کا کمال کیا
امید ہی تو دل شجر کی آخری اساس تھی
شگوفہ یہ بھی ہو گیا خزاں سے پائمال کیا
تمام شہر ہی ہوا کے دوش پر سوار ہے
دکھائے کوئی زخم کیا سنائے کوئی حال کیا (updated 52 months ago) | Damadam