Comments on post titled ہم جو ٹوٹے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے ہاتھوں سے گر کے پتھر پہ
کويی شفاف ايینہ ٹوٹے
جیسے پلکوں سے ٹوٹتا انسو
جیسے سینے میں اک گماں ٹوٹے
جیسے امید کی نازک ڈالی
برگ موسم میں نا گہاں ٹوٹے
جیسے انکھوں میں خواب کی ڈوری
وقت طویل میں الجھ جايے
جیسے پیروں تلے سے زمیں نکلے
جیسے سر پہ اسماں ٹوٹے
جیسے ایک شاخ پہ بھروسہ کیا
اس پہ جتنے تھے اشیاں، ٹوٹے
جیسے وحشت سے ہوش ا جايے
جیسے تا دیر میں دھیاں ٹوٹے
کس نے دیکھا تھا ٹوٹنا اپنا
ہم جو ٹوٹے تو رايیگاں ٹوٹے (updated 50 months ago) | Damadam