Comments on post titled درد کم نہ تھے جو خود کو سنبھال لیا
دل کے سمندر میں ناداں ایک طوفان پال لیا
سوچا تھا روح کو سکون مل جائے گا اب
جرات و شجاعت نے من سے یہ خیال نکال دیا
خاموشیوں نے عرض کیا تنہائیوں سے
لگتا ہے خودی نے خود سے پھر اشتعال لیا
موجوں نے ساحل سے تعلق جوڑا ہی تھا
سرپھرے نے کشتی کا رخ پھر گھما دیا
شور بھی تھا، امید بھی تھی زمانے میں
رکتے تھمتے سفر کو جوان نے پھر ایک خواب دیا
عادت پرانی ہے من چلوں کا انداز نرالہ ہے
ہم نے جوابوں کو ہمیشہ ایک نیا سوال دیا
آشیاں کب نہ تھے ہواوں کے گہراو میں
ہم نے طوفاں کے محور میں پھر رات کا پڑاو کیا
غلط فہمیاں کم نہ تھیں ہمارے حوالے سے ہمیں
ہم نے غلط فہمیوں کو بھی ایک نیا انداز دیا
گمان تو تھے ہی، باتیں بھی آگئیں میدان میں عاطف
خدا جانتا ہے ہماری طرف سے ہمیشہ انجام نے کلام کیا۔۔۔!!🌹♥️🌹 (updated 40 months ago) | Damadam