Comments on post titled بدن کو کاٹتا ہے دکھ ، ملال نوچتے ہیں
یہ درد بھیڑیے ہیں اور کھال نوچتے ہیں
عذابِ ہجر میں آنکھیں اجڑ گئیں جن کی
وہ بے بسی ہے کہ اب اپنے بال نوچتے ہیں
یہاں کے لوگوں کی عادت ہے کوفیوں جیسی
ردائیں چھینتے ہیں اور شال نوچتے ہیں (updated 33 months ago) | Damadam