Comments on post titled چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں
اُسی نادان بچپن کو
اُنہی معصوم خوشیوں کو
اُنہی رنگین لمحوں کو
جہاں غم کا پتہ نہ تھا
جہاں دکھ کی سمجھ نہ تھی
جہاں بس مسکراہٹ تھی
بہاریں ہی بہاریں تھی
کہ جب ساون برستا تھا
تو اس کاغذ کی کشتی کو
بنانا اور ڈبو دینا
بہت اچھا سا لگتا تھا
اور اس دُنیا کا ہر چہرہ
بہت سچا سا لگتا تھا
چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں
اُسی معصوم بچپن کو
چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں
چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں
SK | Damadam