Comments on post titled وحشتوں کے سائے میں بھٹکنا ہے تا عمر
یہ جو عین جوانی میں بڑھاپے کہ آثار ہیں
مجروح قلب آہیں بھرتا کس کرب سے واسطہ
خَم بَہ خَم پڑی آرزوؤں کے راہ دار ہیں
ہوں شامت زدہ آشنا ہو کے بھی الجھا
سانسوں کے اس قرض سے کتنے بیزار ہیں
ہر شام یہ جو الجھن ہے اِک لا حاصل کی
شمع کے جو گِرد پروانے سب میرے طرفدار ہیں
دیارِ شب میں پاس اپنے کوئی غیر نہیں
ذات اپنی،وحشت،رنج و الم،در و دیوار ہیں
واسطہ ہر روز پڑتا ہے زندگی سے اپنا
اجل ہاتھ ہم سے ملا دیکھ کتنے ملنسار ہیں (updated 22 months ago) | Damadam