Comments on post titled خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
میں بھی برباد ہو گیا تو بھی
حسن مغموم تمکنت میں تری
فرق آیا نہ یک سر مو بھی
یہ نہ سوچا تھا زیر سایۂ زلف
کہ بچھڑ جائے گی یہ خوش بو بھی
حسن کہتا تھا چھیڑنے والے
چھیڑنا ہی تو بس نہیں چھو بھی
ہائے وہ اس کا موج خیز بدن
میں تو پیاسا رہا لب جو بھی
یاد آتے ہیں معجزے اپنے
اور اس کے بدن کا جادو بھی
یاسمیں اس کی خاص محرم راز
یاد آیا کرے گی اب تو بھی
یاد سے اس کی ہے مرا پرہیز
اے صبا اب نہ آئیو تو بھی
ہیں یہی جونؔ ایلیا جو کبھی
سخت مغرور بھی تھے بد خو بھی (updated 21 months ago) | Damadam