Comments on post titled حسرت بھری نگاہوں کو آرام تک نہیں
وہ یوں بدل گیا کے اب سلام تک نہیں
جس کی طلب میں زندگی اپنی گزار دی
اس بے رحم کے لب پے میرا نام تک نہیں
جو کہہ گیا تھا شام کو بیٹھیں گے دیر تک
کچھ سال ہو گیے کوئی پیغام تک نہیں
بے اختیار اٹھے ہیں میرے قدم اس طرف
حالاں اس گلی میں مجھے کوئی کام تک نہیں (updated 1 month ago) | Damadam