Comments on post titled میں موم سی گڑیا تھی
اب پتھر سی ہو گئی
نرم و نازک جزبات میرے
نا جانے کہاں کھو گئے
خوابوں کی دنیا بسا کر
میں تنہا سی ہو گئی
معصومیت میں ہی ڈوب گئے ہم
اب معصومیت میری کھو گئی
بنایا تھا جو اک یہاں آشیانہ اپنا
ہوا آنے پر اس سے بھی جدا کو گئی
میں گجروں کی شوقین تھی
اب پھولوں سے نفرت ہو گئی
میں مسکراہٹ پاس رکھنے والی
اب مسکراہٹ میری کھو گئی
خوابوں کا سفر تھا اتنا طویل
کہ منزل میری کھو گئی
آنسوؤں کے ہوتے میں ضبط رکھتی تھی
کچھ یوں میں ٹوٹی کہ ضبط بھی کھو گئی
دریا بہتا تھا درد کا میرے اندر
مگر میں سہتے سہتے خود کو کھو گئی
کر کے قدر سب کی پھر بھی نہ پا سکی
مجھے تنہا رہنا تھا میں تنہا ہو گئی
کر کے سب سے کنارہ کشی جینے لگی
میں اکیلے رہ کر پتھر سی ہو گئی۔۔۔ (updated 13 months ago) | Damadam