Comments on post titled کتنے ہی دوست دشمنوں کی صَف میں آ گئے
تیرے دیے بٹن جو میرے کَف میں آ گئے
تو وہ اہم سوال تھا جو حاشیے میں تھا
ہم وہ فضول کام تھے جو رَف میں آ گئے
پھر اس کے بعد رقص ہوا رقص دیر تک
جب دکھ نکل کے لہجے سے اُس دَف میں آ گئے
ہم ایسے تازہ پھول تھے جو کم سنی میں ہی
بوسیدہ کاغذوں کی کسی لَف میں آ گئے
پہلے تو انتظار ہی اترا تھا بالوں میں
پھر رنگ وحشتوں کے میرے پَف میں آ گئے
خوشحال و اشک بار کی جب ٹولیاں بنیں
سارے ہی سوگوار مری صف میں آ گئے
دو چار میرے دوست سدا دل میں جو رہے
اک روز میں نے دیکھا میرے کف میں آ گئے (updated 1 week ago) | Damadam