Comments on post titled کیا سوچ کے دیتا تھا وہ دستک ، نہیں پوچھا
اور دکھ یہ ہوا نام پتہ تک نہیں پوچھا
میں خواب یہاں بیچنے آئی ہی نہیں جب
کیا مول لگاتے رہے گاہک ، نہیں پوچھا
دھڑکن بھی اذیت تھی مگر وحشتِ دل سے
کرنی ہے ابھی اور بھی بک بک ؟ نہیں پوچھا
سجدے میں بہت باتیں خداوند سے کی ہیں
مٹ سکتی ہے کیا بخت کی کالک ؟ نہیں پوچھا
آنکھوں کی تھکن دیکھ کے سب چونک رہے ہیں
لوگوں نے زباں سے ابھی بے شک نہیں پوچھا
ہر ایک کو سورج کی تمازت سے بچایا
پیڑوں نے کسی شخص سے مسلک نہیں پوچھا (updated 3 days ago) | Damadam