Comments on post titled اتنا قریب آؤ کہ جی بهر کے دیکھ لیں
شاید کہ پهر ملو تو یہ ذوق نظر نہ ہو
یوں اترو میرے دل میں آنکهوں کے راستے
مجھ میں سما جاؤ نظر کو خبر نہ ہو
مدت ہوئی ملے نہیں اک دوسرے سے ہم
آج سب گلے مٹا دو کوئی شکوہ پهر نہ ہو
میرے سامنے بیٹهے رہو میں دیکهتا رہوں
رک جائے وقت کاش طلوعِ سحر نہ ہو
کرلو مجھ سے وعدہ میرے ہو بس میرے
جب ساتھ میرا دو تو زمانے کا ڈر نہ ہو
آئے ہو اب کہ جو تم تو اک شب قیام کر لو
شاید کہ پھر گزر ہو تو میرا گھر نہ ہو
ممکن ہے ترتیبِ وقت میں ایسا بھی لمحہ آئے
دستک کو تیرا ہاتھ اٹھے اور میرا در نہ ہو
فیض احمد فیض ✍ (updated 2 hours ago) | Damadam