Comments on post titled اپنے ہاتھوں سے نشیمن کو جلایا ہم نے
عشق کی راکھ کو سینے سے لگایا ہم نے
درد کی آگ کو شعلوں سے شناسا کر کے
لذت ہجر کی حدت کو چھپایا ہم نے
روح کی پیاس بجھانے کا ارادہ باندھا
وادیٔ عشق میں اک پھول کھلایا ہم نے
ایک بے پردہ محبت کو سمجھ کر سچ ہے
جبر کو صبر کا ہم راز بنایا ہم نے
راہ کی دھول کو راہبر ہی سمجھ بیٹھے تھے
آبلہ پا تھے مگر نام کمایا ہم نے
تیرے ہونٹوں کے لئے باغ کی شرطیں مانیں
پھول کے جسم سے رنگوں کو چرایا ہم نے
دل کی کشتی کو کنارے سے لگایا کشورؔ
اور پھر اس میں محبت کو بٹھایا ہم نے (updated 16 hours ago) | Damadam