"سرخاب کیا خریدے اسباب کیا خریدے
فطرت فقیر جس کی القاب کیا خریدے
لے جا انہیں اٹھا کر , سودا نہیں ہے ممکن
جس آنکھ میں نہ نیندیں, وہ خواب کیا خریدے
بے کار اشک لے کر صحرا گیا تھا مجنوں
جو بوند کو ترستا سیلاب کیا خریدے
بازار ہے یہ دنیا، ہر شے پہ جی یہ آئے
اک کشمکش عجب ہے، بے تاب کیا خریدے
مانا زمیں ہے تیری پر سوچ لے تو ناداں
جب آسماں نہ تیرا مہتاب کیا خریدے
عادت، چلن، طریقے، یہ عشق خاک بدلے
جاہل ہو جو ازل کا آداب کیا خریدے
ابرک سمندروں کی کیا منتیں کرے تو
ساحل تجھے ڈبوئے گرداب کیا خریدے" image uploaded on June 22, 2020, 5:39 p.m. | Damadam