"صدیوں پہلے تخت بہائی میں بدھا کا مجسمہ بناتے ہوئے یہ کہاں سوچا گیا ہو گا کہ سترہ سو سال بعد اس علاقے کے لوگ کسی اور عقیدے پر ہوں گے اور ان میں سے کوئی اپنے مکان کیلئے کھدائی کے دوران اگر یہ مجسمہ دریافت کرے گا تو اسکا پہلا خیال اسے توڑ دینے کا ہو گا۔
توڑنے والوں کو بخوبی پتا ہو گا کہ یہ کتنا نایاب اورقیمتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں کے لوگوں کو اسکی اہمیت کا علم نہ تھا۔ تخت بہائی کا علاقہ اسی ورثے کی وجہ سے سیاحت کا مرکز ہے۔ لیکن پھر بھی مولانا صاحب ان نیم خواندہ لوگوں کے دماغ پہ حاوی ہوگئے۔
سکولوں میں اسلامیات کی جگہ مذاہبِ عالم کا تعارف اور مطالعہ پاکستان کی جگہ تاریخ پڑھانے کی ضرورت ہے۔
Saturday, July 18, 2020 | 20:29" image uploaded on July 18, 2020, 3:29 p.m. | Damadam