"مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا
سفر ہی شرط ہے تو پھر عروج کیا زوال کیا
فراق ساعتوں کے زخم روح تک پہنچ چکے
میسر آئیں بھی تو اب مساعیٔ وصال کیا
ہنر کو دھوپ جنگلوں کی مسکراہٹوں میں ہے
گلاب بستیوں میں ہنستے رہنے کا کمال کیا
امید ہی تو دل شجر کی آخری اساس تھی
شگوفہ یہ بھی ہو گیا خزاں سے پائمال کیا
تمام شہر ہی ہوا کے دوش پر سوار ہے
دکھائے کوئی زخم کیا سنائے کوئی حال کیا" image uploaded on Nov. 12, 2020, 6:48 a.m. | Damadam