"درد کم نہ تھے جو خود کو سنبھال لیا
دل کے سمندر میں ناداں ایک طوفان پال لیا
سوچا تھا روح کو سکون مل جائے گا اب
جرات و شجاعت نے من سے یہ خیال نکال دیا
خاموشیوں نے عرض کیا تنہائیوں سے
لگتا ہے خودی نے خود سے پھر اشتعال لیا
موجوں نے ساحل سے تعلق جوڑا ہی تھا
سرپھرے نے کشتی کا رخ پھر گھما دیا
شور بھی تھا، امید بھی تھی زمانے میں
رکتے تھمتے سفر کو جوان نے پھر ایک خواب دیا
عادت پرانی ہے من چلوں کا انداز نرالہ ہے
ہم نے جوابوں کو ہمیشہ ایک نیا سوال دیا
آشیاں کب نہ تھے ہواوں کے گہراو میں
ہم نے طوفاں کے محور میں پھر رات کا پڑاو کیا
غلط فہمیاں کم نہ تھیں ہمارے حوالے سے ہمیں
ہم نے غلط فہمیوں کو بھی ایک نیا انداز دیا
گمان تو تھے ہی، باتیں بھی آگئیں میدان میں عاطف
خدا جانتا ہے ہماری طرف سے ہمیشہ انجام نے کلام کیا۔۔۔!!🌹♥️🌹" image uploaded on Oct. 20, 2021, 2:46 p.m. | Damadam