Damadam.pk
@Anabiya@'s posts | Damadam

@Anabiya@'s posts:

@Anabiya@
 
Expiring post

ہر شخص اپنی حالت کا ذمے دار خود ہے کوئی دوسرا قصور وار نہیں

@Anabiya@
 
Expiring post

ہر انسان اپنے حصے کی تکلیف خود سہتا ہے

@Anabiya@
 
Expiring post

نجانے کتنے ایسے درد ہوتے ہیں جنہیں ہم سر درد کا نام دیتے ہیں

@Anabiya@
 
Expiring post

سنو انمول تم بھی ہو!!
سنو نایاب ہم بھی ہیں
اگر جو تم نہیں ملتے!!
سنو کم یاب ہم بھی ہیں
سنو خوشبو جو تم ٹھہرے!!
تو پھرگلاب ہم بھی ہیں
جو تم ہو مہتاب!
تو چاندنی ہم بھی ہیں
نہیں کوئی تم سا یہاں!!
تو ہم سا بھی یہاں کوئی نہیں ہے
جو ہو تم سراب کی مانند!!
تو حسیں اک خواب ہم بھی ہیں💝
**

@Anabiya@
 
Expiring post

بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے
انا کے سب حصاروں کو ضرورت توڑ دیتی ہے
جھکایا جا نہیں سکتا جنہیں جبر و عداوت سے
انہیں بھی اک اشارے میں محبت توڑ دیتی ہے
کسی کے سامنے جب ہاتھ پھیلاتی ہے مجبوری
تو اس مجبور کو اندر سے غیرت توڑ دیتی ہے
ترس کھاتے ہیں جب اپنے سسک اٹھتی ہے خودداری
ہر اک خوددار انساں کو عنایت توڑ دیتی ہے
سمندر پار جا کر جو بہت خوش حال دکھتے ہیں
یہ ان کے دل سے پوچھو کیسے ہجرت توڑ دیتی ہے
نبھانا دل کے رشتوں کو نہیں ہے کھیل بچوں کا
کہ ان شیشوں کو اک ہلکی سی غفلت توڑ دیتی ہے

@Anabiya@
 

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گشتہ کناروں کے لیے بہتا ہوں میں
بیش قیمت ہوں مری قیمت لگا سکتا ہے کون
تیرے کوچے میں بکوں تو پھر بہت سستا ہوں میں
خواب جو دیکھے تھے میں نے وہ بھی اب دھندلا گئے
اب تو تم آ جاؤ صاحب اب بہت تنہا ہوں میں
جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح ہے جس میں کہ اب زندہ ہوں میں
میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تو نے مجھ کو باغ جانا دیکھ لے صحرا ہوں میں
میں تو یارو آپ اپنی جان کا دشمن ہوا
زہر بن کے آپ اپنی روح میں اترا ہوں میں
دیکھنے میری پذیرائی کو اب آتا ہے کون
لمحہ بھر کو وقت کی دہلیز پر آیا ہوں میں
تو نے بے دیکھے گزر کر مجھ کو پتھر کر دیا
تو پلٹ کر دیکھ لے تو آج بھی ہیرا ہوں میں
لفظ گونگے ہیں انہیں گویائی دینے کے لیے
زندگی کے سچے لمحوں میں غزل کہتا ہوں میں
اطہر نفیس

@Anabiya@
 

پہلے ہم اشک تھے پھر دیدہء نمناک ہوئے
اک جوئے آب رواں ہاتھ لگی پاک ہوئے
اور پھر سادہ دلی دل میں کہیں دفن ہوئی
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چالاک ہوئے
اور پھر شام ہوئی ، رنگ اڑے جام بنے
اور پھر ذکر چھڑا، تھوڑے سے غمناک ہوئے
اور پھر آہ بھری ، اشک بہے ، شعر کہے
اور پھر رقص کیا، دھول اڑی ، خاک ہوئے
اور پھر ہم کسی پاپوش کا پیوند بنے
اور پھر اپنے بھی چرچے سر افلاک ہوئے
اور پھر یاد کیا ، اسم پڑھا ، پھونک دیا
اورپھر کوہ گراں بھی خس و خاشاک ہوئے
احمد عطاء

@Anabiya@
 
Expiring post

محسن نقوی کی شاعری سے ایک عمدہ انتخاب
ﺟﻨﮓ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺮﺩﺵِ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﯿﮟ ﻗﻔﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﺠﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺭﻭﺡ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺑﺪﻥ ﺍﺟﮍﮮ ﮔﺎ
ﺍﮎ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺩﻝ ﮐﮯ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻟﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﮭﭩﮏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻟﻔﻆ ﮈﮬﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﯾﺴﺎ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﺴﺤﺎ ﮐﮯ ﺑﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺟﻨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺷﻤﺸﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺁﻧﮑﮫ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﺎﺩﻝ ﭨﮭﮩﺮﯼ
ﭼﺎﻧﺪ ﺍﺏ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﮨﻢ ﺟﻮ ﻧﻮﻭﺍﺭﺩِ ﻋﻘﻠﯿﻢ ﺳﺨﻦ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﮐﺒﮭﯽ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻣﻘﻠﺪ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ

@Anabiya@
 

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
ادا جعفری

@Anabiya@
 

آنکھ کُھلتے ہی ___میرے ہاتھ سے چِھن جاتا ہے
حالتِ نیند میں __ اِک خواب سے مانگا ہوا تُو __!

@Anabiya@
 

تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں
جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں
ساحل پر تو سب کے ہوں گے اپنے اپنے لوگ
رہ جائے گی کشتی کی ہر بات سمندر میں
ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں
کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں
میں ساحل سے لوٹ آیا تھا کشتی چلنے پر
پگھل چکی تھی لیکن میری ذات سمندر میں
کاٹ رہا ہوں ایسے امجدؔ یہ ہستی کی رہ
بے پتواری ناؤ پہ جیسے رات سمندر میں
امجد اسلام امجد

@Anabiya@
 

ہست میں پھیلا اجالا یک بہ یک کم ہو گیا
آج کیا تاریخ گزری، کیا محرّم ہو گیا
شاعری منبر پہ پہنچی اور کہا کرب و بلا
درہم و برہم ہوئی صف اور ماتم ہو گیا
مر گئے اے سوز خوانو مرثیہ پڑھ کر چراغ
فرش سے اٹھتا اندھیرا عرش میں ضم ہو گیا
تھی کہاں چشمِ فلک کو ایک نظّارے کی تاب
روشنی کا سر کھلا تو چاند مدّہم ہو گیا
داد کی ٹھنڈی ہوا سے، میں دعا سے سبز ہوں
آنکھ روشنی ہو رہی ہے، اشک مرہم ہو گیا
ایک پیشانی چمک کر خاک روشن کر گئی
ایک سجدے سے کوئی صحرا مکرّم ہو گیا
عصر کا نوحہ سنو گے، ہاں قیامت آ گئی
خون میں غلطاں ہمارا سبز پرچم ہو گیا
احمد جہاں گیر

@Anabiya@
 

ہر اِک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ!
خموشیوں کے مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل، کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ

@Anabiya@
 

ہم صاحبِ انا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
مغرور، بے وفا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
ہم کون ہیں ؟ کہاں ہیں؟ اسے بھول جائیے
جیسے بھی ہیں، جہاں ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
بہتر ہے ہم سے دور رہیں صاحبِ کمال
ہم صاحبِ خطا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
بہتر ہے فاصلے سے ہی گزرا کریں جناب
مفلس ہیں ہم، گدا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
ہم آپ کے ہیں کون؟ ہمیں معاف کیجئے
ہم آپ سے جُدا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
ہم آپ سے خفا نہیں ہیں ، آپ جائیے!
خود ہی سے ہم خفا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے

@Anabiya@
 

دے کوئی طبیب آ کے ، ہمیں ایسی دوا بھی
لذت بھی رہے درد کی ، مل جائے شفا بھی _!
اک ادا سے دل چھلنی ، اک ادا تسلی کی
یارِ من ستمگر بھی ، یارِ من مسیحا بھی _!
⁧‫

@Anabiya@
 

_اک بات کہوں گر سنتے ہو_
_تم مجھ کو اچھے لگتے ہو_
_کچھ چنچل سے کچھ چپ چپ سے_
_کچھ پا گل پاگل لگتے ہو_
_اک بات کہوں گر سنتے ہو_
_یوں بات بات پہ کھو جانا_
_کچھ کہتے کہتے رک جانا_
_کیا بات ہے ہم سے کہہ ڈالو_
_یہ کس الجھن میں رہتے ہو_
_اک بات کہوں گر سنتے ہو_
_ہیں چاہنے والے اور بہت_
_پر تم میں ہے اک بات بہت_
_تم اپنے اپنے لگتے ہو_
_اک بات کہوں گر سنتے ہو_
_تم مجھ کو اچھے لگتے ہو_

@Anabiya@
 

چھوٹی سی بے رُخی پہ شکایت کی بات ہے
اور وُہ بھی اِس لئے ،،، کہ مُحبّت کی بات ہے
مَیں نے کہا کہ آئے ہو کِتنے دِنوں کے بعد
کہنے لگے حضور ! یہ فُرصت کی بات ہے
مَیں نے کہا کی مِل کے بھی ہم کیوں نہ مِل سکے
کہنے لگے حضور ! یہ قِسمت کی بات ہے
مَیں نے کہا کہ رہتے ہو ہر بات پر خفا
کہنے لگے حضور ! یہ قُربت کی بات ہے
مَیں نے کہا کہ دیتے ہیں دِل ، تم بھی لاؤ دِل
کہنے لگے ، کہ یہ تو تجارت کی بات ہے
مَیں نے کہا کبھی ہے سِتم ، اور کبھی کرم
کہنے لگے ، کہ یہ تو طبیعت کی بات ہے

@Anabiya@
 

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہـے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گم صم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں
میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے

@Anabiya@
 

چَلو اَب لَوٹ آؤ تُم____
سُنو تُم نے کَہا تھا نا
مُجھے جَذبہ مُحَبّت سے کَبھی جَو تُم پُکارَو گے
میں اُس دِن لَوٹ آؤں گا ،تَو دَیکَھو نا
کَئی لَمحُوں کَئی سالُوں ،کئی صدیوں
سے تَیرا رَستہ تَکتی
یہ مَیری مُنتظِر آنکَھیں
مَیرے دِل کی یہ دَھڑکَن اَور سانسَیں
بَس تُمہارا نام لَیتی ہیں
وَہی اِک وِرد کَرتی ہیں
مَیری آنکُھوں کے ساحِل پَر
تَیری خَواہِش کی مَوجُوں نے
بَڑی ہَلچَل مَچائی ہے
تَیری تَصوِیر،سُوکھے پُھول اَور تحفے
تَیری چاہَت کی خُوشبُو میں اَبھی تَک سانس لَیتے ہیں
اُداسی سے بَھرے مَنظَر
تُمہارے لَوٹ کَر آنے کی اُمِیدَیں دِلاتے ہیں
سُنو کُچھ بھی نَہیں بَدلا ،تم لوٹ آؤ
♥️

@Anabiya@
 

وہ جاتے جاتے ہنس کے جو اِک بات کر گئے
دورِ زماں کو دورِ خرابات کر گئے
ڈالی نظر تو روح خرابات بخش دی
کی گُفتگُو تو بارشِ نغمات کر گئے
ہم نے متاعِ زیست کو ضائع نہیں کیا
دو چار روز سیرِ خرابات کر گئے
آئے تھے مجھ سے ملنے مگر میں نہ جب ملا
وہ میری بے خودی سے مُلاقات کر گئے
میں عُمر بھر عدمؔ نہ کوئی دے سکا جواب
وہ اِک نظر میں اتنے سوالات کر گئے...!
عبدالحمید عدم