آغاز جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے خطرے کی نشانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے ہر سمت سے امڈا ہے تلاطم ہی تلاطم دریا میں روانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے یہ عمر ہی ایسی ہے کہ رہتا نہیں کچھ ہوش اک جوش جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے چھونے سے نہ مرجھائے کہیں ڈر ہے اسی کا پھولوں سی جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے شوخی ہے شرارت ہے قیامت ہے ادا ہے رنگین جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے ان مست اداؤں کی نزاکت کی حیا کی دنیا بھی دوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے مرمر سا حسیں جسم ہے اک تاج محل سا کیا خوف جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے یوں خود پہ اکڑنا بھی نہیں ٹھیک جہاں میں یہ حسن تو فانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے جاں اپنی گنوا دے گا یہاں آپ کی خاطر رامشؔ نے یہ ٹھانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
سورج ٹُردا نال برابر دن کیوں لگن سال برابر وِتھ تے سجنا وِتھ ہوندی اے بھاونویں ہووے وال برابر اکھ دا چانن مر جاوے تے نیلا، پیلا، لال برابر جُلی منجی بھین نوں دے کے ونڈ لئے ویراں مال برابر مرشد جے نہ راضی ہووے مجرا ، ناچ، دھمال برابر اُتوں اُتوں پردے پاون وچوں سب دا حال برابر
"-محبت ہو جانا کوئی خاص بات نہیں,دعوے اور وعدے کرنا بھی مشکل نہیں,نبھانا مشکل ہوتا ہے اور یہ ظرف ہر کسی میں نہیں ہوتا, بےشک محبت بہت خوبصورت چیز ہے اگر ہاتھ تھام کر چلنے والا انسان مخلص ہو..
کیا کہا کسی حسین بدن پر تُو آمادہ نہیں ہوتا جانے دے یار اتنا بھی کوئی سادہ نہیں ہوتا پگھل جاتی ہے قرب کی حدت سے پارسائی اکثر وہ بھی بہک جاتا ہے جس کا ارادہ نہیں ہوتا
تم جو تنہائیوں سے ڈرتے ہو اپنی پرچھائیوں سے ڈرتے ہو اپنے بڑھتے قدم سنبھالو تم یوں جو رسوائیوں سے ڈرتے ہو عشق آتش نواز دریا ہے اس کی گہرائیوں سے ڈرتے ہو یہ جو ماتم گزار شامیں ہیں ان میں شہنائیوں سے ڈرتے ہو خونِ دل پی کے جو نکھرتی ہیں ایسی رعنائیوں سے ڈرتے ہو ان کی نظروں سے کیوں گریزاں ہو یوں ہی تم کھائیوں سے ڈرتے ہو یہ تو سودا گرانِ الفت ہیں پھر بھی ہرجائیوں سے ڈرتے ہو سرمئی رات جھیل سناٹا شب کی انگڑائیوں سے ڈرتے ہو حال دیکھو نا شب گذیدہ سا اب بھی سودائیوں سے ڈرتے ہو
ہر رات تیری یاد کو ، سینے سے نکالا جیسے کسی مُورت کو دفینے سے نکالا اک خواہش ِ ناکام کو اِس کُوچہِ دل سے بدلے تیرے تیور ، تو قرینے سے نکالا پاٶں تیری دہلیز پہ رکھنے کے سزاوار تُو نے جنہیں تکریم کے زینے سے نکالا سِکہ نہیں چلتا تیری سرکار میں ورنہ کیا کیا نہ ہُنر ھم نے ، خزینے سے نکالا ہم ایسےبُرے کیا تھےکہ نفرت نہ محبت رکھا نہ کبھی پاس ، نہ سِینے سے نکالا ٹھوکر میں طلب کی رھے ہر عمر میں ہمجان یُوں جیت کےمفہوم کو جینے سے نکالا