تُو مُخاطب تھا ، کوئی بات وہ کرتا کیسے تیری آنکھوں میں جو ڈوبا تھا ، اُبھرتا کیسے میں جسے عُمرِ گُریزاں سے ُچرا لایا تھا وہ تِرے وصل کا لمحہ تھا، گُزرتا کیسے میری مٹّی میں فرشتوں نے تجھے گوندھا تھا میرے پیکر سے تِرا رنگ اُترتا کیسے میں نے کافر کو دلیلِ رُخِ روشن دی تھی ! حُسنِ یزداں سے مُکرتا تو، مُکرتا کیسے آئنہ تیرے خدوخال ، قد و قامت کو ! روبرو دیکھ نہ پاتا، تو سنورتا کیسے کم نِگاہی کا نہ طعنہ مجھے دینا، عاجزؔ تُو کہ سورج تھا، تجھے آنکھ میں بھرتا کیسے
قفسِ زِنداں میں تیری یاد کا کاسہ لے کر ہِجر کے دیپ جَلاتے ہیں٬ جِدھر جاتے ہیں تم کو ہے راس، کسی وَصل کا کاندھا لیکن لوگ جو دِل سے اُترتے ہیں٬ کِدھر جاتے ہیں ؟
ایک نادیدہ سفر پاوں کی زنجیر ہوا پھر وہ منزل کی طرح سے مری تقدیر ہو ا آخری بات مرے دل میں رہی کہہ نہ سکی آخری خواب فقط آنکھ میں تصویر ہوا درد تھا کڑوی دواوں کی طرح پہلے پہل بعد مدت کے مری ذات کو اِکسیر ہوا رات کا جسم سیہ شال میں لپٹا پہروں یاد کا چہرہ نکل آنے سے تنویر ہوا یاد ہے اس کو کہ وہ دن تھے ستاسی پورے ہجر کا دشت بڑی دیر سے تسخیر ہوا ہم سمجھتے تھے محبت کا صحیفہ ہے کوئی اپنے عنوان کے بر عکس وہ تفسیر ہوا شاخِ عجلت سے وہ ٹوٹا ہوا لمحہ شاید بابِ الفت میں کسی ہاتھ سے تحریر ہوا جیسے ترسا ہوا ، ٹوٹا ہوا تنہا کوئی راستہ آپ مسافر سے بغل گیر ہوا
زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس چاک پر کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی تجھ کو ناراض کروں ، روز مناؤں واپس وہ مرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس دیکھ میں گردشِ ایام اٹھا لایا ہوں اب بتا، کون سے لمحے کو بلاؤں واپس؟ یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت تُو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا ہو چکا تیرا تماشا، تو میں جاؤں واپس
تیری مشکل نہ بڑھاؤں گا چلا جاؤں گا اشک آنکھوں میں چھپاؤں گا چلا جاؤں گا اورگلیوں سے تو مجھ کو نہیں لینا کچھ بھی بس تمہیں دیکھنے آؤں گا چلا جاؤں گا اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا مدتوں بعد میں آیا ہوں پرانے گھر میں خود کو جی بھر کے رلاؤں گا چلا جاؤں گا چند یادیں مجھے بچوں کی طرح پیاری ہیں ان کو سینے سے لگاؤں گا چلا جاؤں گا خواب لینے کوئی آئے کہ نہ آئے کوئی میں تو آواز لگاؤں گا چلا جاؤں گا میں نے یہ جنگ نہیں چھیڑی یہاں اپنے لیے تخت پہ تم کو بٹھاؤں گا چلا جاؤں گا آج کی رات گزاروں گا مدینے میں حسن صبح تلوار اٹھاؤں گا چلا جاؤں گا
حُکم تیرا ہے تو تَعمِیل کِیے دیتے ہیں، زِندَگی ہِجَر میں تَحلِیل کِیے دیتے ہیں، تُو مَیری وَصل کی خواہِش پہ بِگَڑتا کِیُوں ہے، راستَہ ہی ہے چَلو تَبدِیل کِیے دیتے ہیں، آج سَب اَشکوں کو آنکھوں کے کِنارے پہ بُلاؤ، آج اِس ہِجَر کی تَکمِیل کِیے دیتے ہیں، ہَم جو ہَنستے ہُوئے اَچھّے نَہِیں لَگتے تُم کو،... تُو حُکم کَر آنکھ اَبھی جھِیل کِیے دیتے ہیں...! ..🍁🖤
کون چلا ہے اُلٹے پاؤں کس نے پایا سنگِ میل اپنی اپنی قربانی ہے اپنا اپنا اسماعیل میرے گھر کے دو دروازے دو سمتوں میں کُھلتے ہیں ایک طرف پُرکھوں کی قبریں ایک طرف ہجرت کا نِیل 🥀🖤
مجھے ملال میں رکھنا خوشی تمہاری تھی مگر میں خوش ہوں کہ وابستگی تمہاری تھی بچھڑ کے تم سے خزاں ہو گئے تو یہ جانا ہمارے حسن میں سب دل کشی تمہاری تھی بہ نام شرط محبت یہ اشک بہنے دو ہمیں خبر ہے کہ جو بے بسی تمہاری تھی وہ صرف میں تو نہیں تھا جو ہجر میں رویا وہ کیفیت جو مری تھی وہی تمہاری تھی گلہ نہیں کہ مرے حال پر ہنسی دنیا گلہ تو یہ ہے کہ پہلی ہنسی تمہاری تھی
عکــــــــں رخصــت ہوئے' آئینے رہ گئے زاد ِ عُمر ِ رواں تذکرے رہ گئے ایک ٹھنڈے پڑاؤ کی خواہش میں ہم ! اجنبی سَر زمیں پر پڑے رہ گئے مُنتشِر زمزمے ' تہہ میں گرداب تھے سطح ِ خاموش تک دائرے رہ گئے ایک سہمی ہوئی شب کی آغوش میں لمس ِ بےنام کے ذائقے رہ گئے لاؤ لشکر لئے خواب رخصت ہوئے چشم ِ بے خواب میں رَت جگے رہ گئے
بہت افسردہ لگتے ہیں مجھے آب پیار کے قصے ۔۔۔ گل و گلزار کی باتیں لب و رخسار کے قصے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سب کے مقدر میں فقط غم جدائی ہے ۔۔۔۔۔ سبھی جھوٹے افسانے ہیں وصال یار کے قصے ۔۔۔۔ بھلا عشق و محبت سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے ۔۔۔ سنو تم کو سناتا ہوں میں کاروبار کے قصے ۔۔۔ میرے احباب کہتے ہیں ، یہی اک عیب ہے مجھ میں ۔۔۔ سر دیوار لکھتا ھوں پس دیوار کے قصے ۔۔۔۔ میں اکثر اس لئے بھی اب لوگوں سے نہیں ملتا ۔۔۔۔ وہی بیکار کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی بیکار کے قصے ۔۔۔۔
نہ عبادتیں نہ ریاضتیں نہ ہی حرف ہیں میرے ہاتھ میں تو کریم ہے دو جہان کا مجھے میرے غم سے نجات دے ہے ازل تیرا ہے اورابد تیرا ہیں تیری ہی خدائ کے ضابطے ملے مجھ کو تیری عنایتیں میری حسرتوں کو دوام دے نہ ہو دشت میں کؤی ذوق بھی نہ رہے گا حزن و ملال بھی تجھے تیرے عطاء کا ہے واسطہ میری بندگی کو سنوار دے۔۔ آمین یارب العالمین ۔
کسی کمزور لمحے میں اگر میں کہہ پڑوں تم کو مجھے تم سے محبت ہے تو ہنس کر ٹال دینا بات میری اور بتانا کہ محبت جنسے ہوتی ہے انہیں آگاہ نہیں کرتے کہ آگاہی محبت میں گویا موت ہوتی ہے محبت نام ہے خاموش جذبے کا سسکنے کا تڑپنے کا سلگنے کا اگر بتلاؤ گے محبوب کو چاہت کے بارے میں وہ تم سے دور جائے گا وہ تم کو چھوڑ جائے گا وہ تم کو خاص سے یکدم ہی بلکل عام کردے گا وہ تم کو عشق کے بازار میں بےدام کردے گا سو اے ہمدم لگاؤ دل کو تم سو بار لیکن دھیان یہ رکھنا تمہارے دل میں جو ٹھہرے اسے یہ مت بتانا وہ تمہارے دل کا باسی ہے اسے یہ مت بتانا کہ بغیر اسکے اداسی ہے اسے بلکل نہ جتلانا کہ تم کو اسکی چاہت ہے اسے بلکل نہ بتلانا تمہیں اس سے محبت ہے....
اک نظم تمہاری آنکھوں پر وہ آنکھیں جن کو چھونے کو🌹 بے چین رہے سارے موسم بے تاب رہے ان چھوئے گُل جن آنکھوں کی دہلیزوں پر 🌹کچھ خواب سدا زرخیز رہے مہمیز رہے اک نظم تمہاری آنکھوں کی🌹پرشور طلاطم موجوں پر جو ساحل سے ٹکراتی ہیں تو کتنے ماہی گیروں کے🌹 ہونٹوں پہ نغمے چھڑتے ہیں اک نظم تمہاری آنکھوں کے آباد جزیروں کی خاطر🌹دن بھر جن کے بازاروں میں سیاح اُمڈتے رہتے ہیں اور شام ڈھلے اک سوگ ذدہ🌹 بے نام اُداسی پھیلتی ہے اک نظم اُداسی میں لپٹی ان جاگی سوئی راتوں کی🌹 بے کیف گزاری آنکھوں پر اک نظم تمہاری آنکھوں پر
کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی میں چراغ وہ بھی بجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی مری داستاں کا عروج تھا تری نرم پلکوں کی چھاؤں میں مرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تری آنکھ کیسے جھپک گئی بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی ترے ہاتھ سے میرے ہونٹ تک وہی انتظار کی پیاس ہے مرے نام کی جو شراب تھی کہیں راستے میں چھلک گئی تجھے بھول جانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں تری یاد شاخ گلاب ہے جو ہوا چلی تو لچک گئی