ہجر کا تارا ڈوب چلا ہے ۔۔۔۔۔ڈھلنے لگی ہے رات وصی———- ———قطرہ قطرہ برس رہی ہے ۔۔۔۔۔اشکوں کی بارات وصی——— ———تیرے بعد یہ دنیا والے ۔۔۔۔۔مجھ کو پاگل کر دیں گے،——— ——-خوشبو کے دیس میں مجھ کو ۔۔۔۔۔لے چل اپنے ساتھ وصی——- ——-یونہی چپ کی مہر لگا کر ۔۔۔۔۔گم سم کب تک بیٹھو گے——- ———خاموشی سے دم گھٹتا ہے ۔۔۔۔چھیڑو کوئی بات وصی——— ———آج تو اس کا چہرہ بھی ۔۔۔۔کچھ بدلا بدلا لگتا ہے،——— ———موسم بدلا، دنیا بدلی۔۔۔۔۔ بدل گئے حالات وصی——— ——میرے گھر خوشبو کا یہ رقص ۔۔۔۔۔اُسی کے دم سے ہے،——— —اُس کے ساتھ چلی جائے گی ۔۔۔۔۔پھولوں کی برسات وصی،——— ——چھوڑ وصی اب اُسکی یادیںں ۔۔۔۔تجھ کو پاگل کر دیں گی،——- ——-تو قطرہ ہے، وہ دریا ہے۔۔۔۔۔ دیکھ اپنی اوقات وصی—
ایک یاد بڑی بیمار تھی کل کل ساری رات اس کے ماتھے پر برف سے ٹھنڈے چاند کی پٹی رکھ رکھ کر اک اک بوند دلاسا دے کر ازحد کوشش کی اس کو زندہ رکھنے کی پو پھٹنے سے پہلے لیکن آخری ہچکی لے کر وہ خاموش ہوئی
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ہوئے جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے وہ جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے