"دعا کرو کہ تمنائیں دل کی بر آئیں"
زباں کھولوں تو مجھ پر سینکڑوں الزام آتے ہیں
نہ بولوں تو مجھے میرا سخنور مار دیتا ہے
آبروئے ادب جنت مکانی حضرت اسحاق اثر اندوری
مناجات حضرت آدم علیہ السلام
اے رب!
ہم نے اپنے اوپر ستم کیا۔ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ فرمایا۔
تو یقیناً ، ہم تباہی ہو جائیں گے۔
لوط علیہ السلام کا اپنے لوگوں سے خطاب
اقتباس
افسوس! کہ تم لوگ ایسے فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیے ۔
کیا تمھارا یہ حال ہے کہ تم مردوں کے پاس جاتے ہو ۔ رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا برے کام کرتے ہو ۔
بازار میں لفظوں کے خریدار بہت ہیں
رخ کرتا نہیں کوئی معانی کی دکاں پر
آغاز برنی
تو تھا مزاج شناسوں میں ہر دفعہ اول
میں بھول کر بھی تری نیکیاں نہ بھولوں گا
ع ر ع
جس جگہ صرف غرض ہو احساس نہ ہو
کون سمجھے گا طبعیت یا مزاجوں کو وہاں
بولنا چاہیے مظلوم کے حق میں جس جا
موت آتی ہے ادیبوں کے رواجوں کو وہاں
عبید رضا عباس
تعلی
میں جھانکتا ہوں گریباں میں لازمی اپنے
کہ میں نے خود کو بھلے کی مثال دینی ہے
عبید رضا عباس
ہمزاد کی صلاح ہے کمتر نہ اس کو جان
بہتر یہی ہے دوست منافق نہ ساتھ لے
ع ر ع
جانشین ساغر نظامی آبروئے غزل جنت مکانی اسحاق اثر اندوری
چار قدموں کے لیے بھی پا پیادہ زندگی
کر رہی ہے کس قدر نخرے زیادہ زندگی
تو کہیں کی شاہزادی ہے تو اتنا جان لے
میں بھی ہوں اپنے وقت کا شہزادہ زندگی
لمحہ لمحہ صدیاں گن کے دے چکے ہیں عمر کو
اور تیرا اب بتا کیا ہے ارادہ زندگی
تو ردا اپنی اگر تبدیل کرتی ہے تو کر
ہم بدل سکتے نہیں اپنا لبادہ زندگی
جس میں تیرے ساتھ تھا اسحاق اثر کا نام بھی
وہ ورق تو آج بھی رکھا ہے سادہ زندگی
منتظر صرف ایک کن کی ہیں
میں جو رکھتا ہوں خواہشیں دل میں
عبید رضا عباس
ذہن کیسے سکون پائے ، جب
دل میں بے چینیوں کا ڈیرہ ہو
عبید رضا عباس
ایک مدت سے کہہ رہے ہیں عبید
الجھنوں میں ہے زندگی فی الحال
عبید رضا عباس
نظم: بلا عنوان
کتاب: زندگی کلیشے ہے ۔
شاعر: افتخار حیدر
۔ ۔ ۔
سانس چلنے والی تھی
شام ڈھلنے والی تھی
غم گزرنے والا تھا
زخم بھرنے والا تھا
اشک تھمنے والے تھے
دل سنبھلنے والا تھا.......!!
سب بدلنے والا تھا
تو کہ پھر چلی آئی.....!!
