بے مروت سماج میں ہم نے کیا بتائیں کہ کیا نہیں دیکھا یہ حقیقت ہے موت کی، اس نے کوئی چھوٹا بڑا نہیں دیکھا کرے بیدار جو زمانے کو شعر وہ آپ کا نہیں دیکھا عبیدؔ رضا عباس
یہ لازمی نہیں میں بتاؤں ہر ایک بات چہرے پہ جو لکھا ہے کتابوں سے کم نہیں ع ر ع
وصل و فراق عشق کا حاصل وصول ہے
بہت ضروری ہیں کچھ ٹھوکریں سنبھلنے کو پتا عبید کا لمحوں میں چل نہیں سکتا ع ر ع
اس قدر جدتوں کے ہوتے ہوئے آ رہی ہے کیوں آدمی میں بگاڑ ع ر ع
سوچیے پڑھ کے قصہء قابیل اب عبید اعتبار کس کا کریں عبید رضا عباس
آدمیت پر ظلم کرنے کی انتہا پر عبید پہنچے ہیں ع ر ع
ٹرک اڈے کے بعد پیش خدمت ہے ٹھرک اڈہ (دمادم)
ایک چرواہی ، دن بھر پگ ڈنڈی پر بیٹھی رہتی ہے اس بستی کا رستہ جب سے ہم بنجارے بھول گئے حضرت ستیا پال آنند
ظلم و ستم کے سہنے والوں! یہ بھی کوئی بات ہوئی آپ سبھی خاموش رہیں گے بولوں تو بس بولوں میں اسحاق اثر اندوری
بانٹیے ہم میں نہ نفرت کے سبق ہم محبت کے طلبگار ہیں بس ع ر ع
فائدے میں رہا وہی جس نے دوست اپنے مزاج کا رکھا تبھی نظریں چرا رہے ہیں عبید سامنے ان کے آئنہ رکھا عبید رضا عباس
خواہش آسمان رکھتے ہو کیا سرکشت زمیں نہیں لگتی ع ر ع
ہر قدم سوچ کر اٹھائیے گا دل غلط رہ پہ آ بھی سکتا ہے ع ر ع
دڑ وٹ دیھاڑے کٹ
ندا حق کی یوں پردہ پوش ہوئی لب سلے اور زباں خموش ہوئی میں وہ تنہا عبید ہوں جس کی جس کی اچھائی نذرِ دوش ہوئی عبید رضا عباس
آنکھیں ان خوابوں کے در پر ہیں عبید جن کی تعبیر نہیں ہوتی ہے ع ر ع
انس و وفا سے کچھ بھی سروکار ہی نہیں نفرت کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں جو عبید رضا عباس
فقط اک بے وفا دیکھا ہے اس نے وفاداروں پہ کب اس کی نظر ہے عبید رضا عباس