اس دنیا کی
کل وسعت اتنی ہے
جہاں تک کسی پریمی کی نظر پھیل جائے-
اور میں یقین سے کہتا ہوں
کسی بھی پریمی کے لئے
وہی جنت کا مرکز ہے
جہاں
وہ آذادی سے اپنے محبوب کو
بانہوں میں تھام کر
دیوانہ وار جھوم جائے
💜
قدرت نہیں چاہتی کوئی کسی کو بھول جائے اس لئے تو اُس نے چاندنی راتوں کو تخلیق کیا ہے
رات کی تمام تر تاریکی
اس اکیلی موم بتی کی برابری نہیں کرسکتی
جو بجھ جانے سے انکار کردے۔
کسی کو سونپا گیا تُو بغیر محنت کے...
میری کمائی کوئی چھین لے گیا مجھ سے...
اب اس عذاب میں اک خودکشی ہے حل میرا...
یہ ایک حل بھی مگر دین لے گیا مُجھ سے...
قاصد پیام شوق کو دینا بہت نہ طول
کہنا فقط یہ ان سے کہ آنکھیں ترس گئیں
جانے کل گھر کی جگہ کیا بن جائے
صرف ویرانی پہ اتنا افسوس
پھول کچھ روز میں لوٹ آئیں گے
دل دوبارہ نہیں کھلنا ، افسوس
الفاظ تو صرف بہانہ ہیں۔ یہ اندرونی بندھن ہے جو ایک شخص کو دوسرے کی طرف کھینچتا ہے، الفاظ نہیں۔
~ رومی
کتنا ہی اچھا ھوتا کہ لوگ آنکھوں سے اوجھل نہ ھوتے اور انسانی رشتے جُوں کے تُوں رھتے اور مجھے افسانہ لکھنے کی مصیبت نہ اٹھانی پڑتی ۔
مگر افسوس کہ انسانی رشتے ھر آن بدلتے ھیں اور بکھر جاتے ھیں ۔ لوگ مر جاتے ھیں یا سفر پر نکل جاتے ھیں یا رُوٹھ جاتے ھیں ۔ پھر میں اُنہیں یاد کرتا ھُوں اور اُنہیں خوابوں میں دیکھتا ھُوں اور افسانے لکھتا ھُوں"
"انتظار حُسین"
سنو !!
کچھ دن ٹھہر جاؤ
ابھی راستہ نہیں بدلو
ابھی تو ٹھیک سے مجھ کو
سنبھلنا بھی نہیں آتا
تمہیں معلوم ہے مجھ کو
بچھڑنا بھی نہیں آتا .
” کچھ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے. مگر یاد رکھیے کہ یہ آپ کی کہانی کا اختتام نہیں ھے بلکہ آپ کی کہانی میں اُن کے کردار کا اختتام ھے۔“
"جیسن سٹیتھم"
محبت سے بھرے دل والا انسان نہ تو تنہا ہوتا، نہ مفلس، نہ ہی بدصورت!
ایرینا بائنڈر ❤️
"احترام اس خالی جگہ کو چھپانے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا ، جہاں محبت ہونی چاہیئے۔"
لیو ٹالسٹائی
عورت کی نفسیات کے مطابق اسے ایک ایسے میچور مرد کی
ضرورت ہوتی ہے جو اسے بچوں کی طرح ڈیل کرے اور اسکی ہر بچگانہ حرکات کو برداشت کرے اور سب سے بڑی بات اسے منانے کا ہنر آنا چاہئے❤
کچھ بھیگے الفاظ...
میں اپنے جہان رنگیں میں جی رہی تھی
کہ میرے اطراف زندگی تھی
بہار تازہ بھی دل کشی تھی
حسیں ملائم سی روشنی تھی
پھر ایک دن " اتفاق" سے مل گئے تھے ہم تم
محبتوں کے اسیر ہو کر چلے تھے ہم تم
مگر سفر میں نہ جانے کیسے کہاں پے آخر
یہ موڑ آیا
نصیب نے پھر یہ دن دکھایا
حقیقتوں کو زوال آیا
پھر ہم دونوں کو ایک دوسرے کا خیال آیا
عنبرین حسیب عنبر
ﻧﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺮﺳﯿﮟ ﻧﮧ ﺗﻢ
ﮨﯽ ﻣﻠﮯ
ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﯽ ﻧﺌﮯ ﮔﻞ
ﮐﮭﻠﮯ
ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻗﺎﻓﻠﮯ
ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺑﮍﯼ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﻠﮯ
ﻭﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﮨﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﻭﮨﯽ ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﯽ ﻓﺎﺻﻠﮯ
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﮔﺌﯽ
ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮎ ﮔﺌﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻗﺎﻓﻠﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﮔﺮﻓﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺘﻮ
ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﮔﻠﮯ
ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﮯ ﻣﻌﯿﺎﺩ ﻏﻢ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ
ﺻﻠﮯ ۔
ﻧﺎﺻﺮ ﮐﺎﻇﻤﯽ
وہ کسی طاق پہ رکھی ھوئی مہنگی گُڑیا
میں اسے دور سے تکتا ھوا مفلس کوئی
دکھ تو یہ ہے کہ وہ اب
بس خبر گیری ہی رکھتا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain