زندگی اس نہج پہ پہنچ گئی ہےکہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے جھوٹی تسلیاں دینی پڑتی ہیں.دل اُچاٹ ہو گیا ہے ہر رشتے سے اعتماد بھروسہ فقط بے معنی الفاظ رہ گئے ہیں دماغ ماؤف ہو چکا ہے اندر ایک شور سا برپا ہے روزانہ خود سے کتنی ہی بار جنگ لڑنی پڑتی ہے آنکھیں بند کرو تو چند الفاظ کانوں میں گونجنے لگتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے کسی نے کانوں میں پگھلا سیسہ اُنڈیل دیا ہو ساری قوت جمع کر کے چینخنا چاہتا ہوں پر چینخ نہیں سکتا ایسے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے جو کہنا چاہتا ہوں مگر حال یہ ہے کہ زبان پہ قفل لگا چکا ہوں کسی پہ اتنا بھی بھروسہ نہیں رہا کہ حالِ دل کہہ سکوں اعتماد اتنی بار ٹوٹ چکا ہے کہ اب اگر غلطی سے کسی پہ کر بھی لوں اور وہ دغا دے جاۓ تو شاید اگلی سانس نہ لے پاؤں اتنا بزدل ہو چکا ہوں کہ بہت دور بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ عینؔ