اسی سے جان گیا میں کے بخت ڈھلنے لگے۔۔۔
میں تھک کے چھاؤں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے ۔۔۔۔۔
میں دے رہا تھا سہارے تو ایک ہجوم میں تھا۔۔۔۔
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے۔۔۔۔
🥺🥺🥺🥺🙏
لوگ آتے ہیں بہت دل کو جلانے میرے ۔۔۔۔۔۔
تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانی میرے ۔۔۔۔
خط کے آخر پے بنایا ہوا تھا دل اس نے۔۔
میںنے جب کھولا تو کاغذ کو دھڑکتے دیکھا۔۔۔۔۔۔❤️❤️❤️
دوستا اپنی سماعت پے ابھی رشک نہ کر۔۔
اسکا انکار بھی سننا ہی انہی کانوں سے۔۔۔۔۔۔
تو نے پل بھر بھی میسر نہ کیے رونے کو۔۔۔۔۔
کتنی اُمید تھی احمد کو تیرے شانوں سے۔۔۔۔۔
وہ دن گئے کے محبّت تھی جان کی بازی
، کسی سے اب کوئی بچھڑے تو مر نہیں جاتا۔۔۔۔
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔رچا ہوا ہے بدن میں ابھی سرورِ گناہ۔۔۔۔۔,۔۔ابھی تو خوف نہیں آئیگا سزا سے مجھے۔۔۔۔
خود بھی کچھ کم نہیں میں اپنی تباہی کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوستوں سے مجھے امداد بھی آ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رونا ہوتا ہے کسی اور حوالے سے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایسے میں تیری یاد بھی آ جاتی ہے۔۔۔
وہ گاؤں کا ایک ضعیف دہقاں ، سڑک کے بننے پے کیوں خفا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں کے بچے ہو شہر ہے کر کبھی نہیں لوٹے تو لوگ سمجھے۔۔۔۔۔🔥🔥❤️
جو ہم پر گزرے تھے رنگ سارے ، جو خود اور گزرے تو لوگ سمجھے۔۔ جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے ۔,۔ ۔۔ اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا ،، ۔۔۔ جب اُسکے کمرے سے لاش نکلی ، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے۔۔۔۔۔
آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا
جیسے خوشبوئے زلف بہار آ گئی جیسے پیغام دیدار یار آ گیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رو بہ رو پھر سر رہ گزار آ گیا
صبح فردا کو پھر دل ترسنے لگا عمر رفتہ ترا اعتبار آ گیا
رت بدلنے لگی رنگ دل دیکھنا رنگ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا اشک امڈے کہ ابر بہار آ گیا
خون عشاق سے جام بھرنے لگے دل سلگنے لگے داغ جلنے لگے
محفل درد پھر رنگ پر آ گئی پھر شب آرزو پر نکھار آ گیا
سرفروشی کے انداز بدلے گئے دعوت قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آ گیا
فیضؔ کیا جانیے یار کس آس پر منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
مے کشوں پر ہوا محتسب مہرباں دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آ گیا
فیض احمد ف
Tarapte hain na roote hain, na hum faryad karte hain,.... . . . . . . . ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Sanam ki yaad me har dam khuda ko yaad karte hain,۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Unhin ke ishq me hum naala-o-faryaad karte hain,۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Elaahi dekhiye kis din hame wo yaad karte hain...۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
Shab-e-faraaq me kia kia saanp lehraate hain seene pe, ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Tumhari kakul-e-peechan ko jab hum yaad karte hain
خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گرہوں
یہی سوز نفس ہے، اور میری کیمیا کیا ہے!
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
نواے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!
محبت
عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی ناآشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے
قمر اپنے لباس نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئین مسلم سے
ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاق زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے
کمال نظم ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشم خاتم سے
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاک پا میں بڑھ کر ساغر جم سے
لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسم اعظم سے
بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعی پیہم سے
Yr mere phone me ek problem he ....... jazz ki sim pe data nhn chalata .... uper 3G 4G b nh likhta apn b set kiye mobile b restore kia kuch nh bana .... help kardo yaar.😯😣😣
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
.
کبھی جو آوارہ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہو گا
گوش منتظر: انتظار میں لگے کان۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا
😭😭😭😣😰
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain