ایک حد تک اذیت سہنے کے بعد
خود کُشی کو حلال بتایا جائے
کچھ مر سا گیا ہے اندر
اب میرا دل حسرتیں نہیں کرتا
کچھ مر سا گیا ہے اندر
اب میرا دل حسرتیں نہیں کرتا
میرے لفظ چرانے والے
میرا درد کہاں سے لاؤ گے..
لے کر ہاتھوں میں ہاتھ عمر بھر کا سودہ کر لے
کچھ محبت تم کر لو کچھ محبت ہم کر لیں


جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ذوقِ جنون کو حد سے گزر جانے دو
وہ سمیٹنے آئے گا ہمیں بکھر جانے دو
ابھی دسترس میں ہوں تو احساس نہیں اس کو
رو رو کے پکارے گا ہمیں مر جانے دو
زندگی کب کی خاموش ہوگئی
دل تو بس عادتن دھڑکتا ہے
اب تو خواہش ہے یہ کہ سزا وہ ملے
روۓ جاؤں تو چپ نہ کراۓ کوئی
کروٹیں دو ہی ہیں
اور دونوں طرف بے چینی ہے

ہم بہت گہری اداسی کے سوا
جس سے بھی ملتے ہیں کم ملتے ہیں



