: لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی...❤💖❤
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند اے شب ہجراں ذرا اپنا ستارہ دیکھنا کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے... ❤❤💖💖