تیرے باعث ہی تو سکتہ کا ہے عالم طاری
خود کو ناراض کیا تجھ کو منانے کے لیے
آج پھر شام گزر رہی ہے اسی جنگل میں
ان درختوں سے تیرا نام مٹانے کے لیے
جن کے ہاتھوں میں صداقت کے علم ہوتے ہیں
طے شدہ بات ہے ، تعداد میں کم ہوتے ہیں
ڈھلتی شام اور گہرے سائے
خالی کرسی میں اور چائے
دکھ نے سکھ کا سانس لیا ہے
کاش اب کوئی یاد نہ آئے