Main tujhay dekhti to rehti hon magar mujh say tujhay dekhnay walay nhi dekhay jatay
تو نے جانا تھا میں نے جانے دیا
اب اس سے بڑھ کر اور کیا وفا کرتی میں
عشق محبت کچھ نہیں ہوتا
ساقی
جو شخص آج تیرا ہے وہ کل کسی اور کا ہوگا
دعا کرو آج ایک کمال ہوجاے
میں نہ رہو میرا انتقال ہوجاے
روۓ تو بہت اس کے دروازے پر دستک دے کر
درد کی انتہا ہوگیٔ جب اس نے کہا!
کون ہو تم؟
سنا تھا تیرے شہر کے لوگ وفا کرتے ہیں
صاحب
جب ہم دیوانے ہوئے تو اصول ہی بدل گئے
ہم اپنی اسی ادا پہ غرور کرتے ہیں
محبت ہو یا نفرت دونوں بھرپور کرتے ہیں
آج دل مجھ سے پوچھ کر رو پڑا
کہ ایسا کیا پانا تھا تجھے جو تو نے خود کو ہی کھو دیا
اگر تو چاہتا ہے کہ ہم کچھ دیر اور جیے
تو ایک بار پلٹ کر آجا کہ سانسیں چلنے لگے
وہ کسی اور کو میسر ہے
میرا یہ صدمہ صرف میرا خدا جانتا ہے
ٹھیک ہونا پڑے گا آپ کو صاحب
ورنہ ہم بگڑ گئے تو تماشہ بنے گا
ندامت کے چراغوں سے بجھ جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے باتیں کرتے ہیں
نہیں آتا مانگنا تو خالی ہاتھ پھیلا دو
وہ بند لبوں کی دعا بھی سن لیتا ہے
کبھی غم کی آگ میں جل اٹھے
کبھی داغ دل نے جلا دیا
اے جنون عشق بتا مجھے
کیوں مجھے تماشہ بنا دیا
وہ لوگ کبھی جیت نہیں سکتے
جو دوسروں کو ہرانے کا سوچتے ہیں
عشق ہے تو دشمن کی کیا ضرورت
نہ ہتھیار نہ تلوار
سیدھا دل پے وار
ابھی تو ہم بدلے ہیں
بدلے تو ابھی باقی ہیں
ابھی تو ہم بدلے ہیں
بدلے تو ابھی باقی ہیں
چراغ جلانا تو رسمیں ہیں
غالب
مزہ تو تب آتا ہے جب شریکوں کے دل جلتے ہیں
اکیلا خوش ہوں پریشان نہ کر
عشق ہے تو عشق کر
احسان نہ کر