زر کے لئے ہیں عدل کے دربار بک گئے حرص و ہوس میں حسن کے سردار بک گئے سچ کا یہاں پہ کوئی خریدار کب ملا جھوٹے تھے جتنے شام تک اخبار بک گئے سورج خرید لائے تھے ہم جن کے واسطے سائے ڈھلے جو شام کے غدار بک گئے دشمن کی کوئی چال نہ مجھ کو ہرا سکی پھر یوں ہوا کہ میرے سبھی یار بک گئے...
میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا وہ ایک شاعر آشفتہ سر کہ مجھ میں تھا ہوا کا ساتھ نہ دے کر ہوا کے بس میں رہا کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا ... MALIK ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں ایسے مفلس ہ
شکائیتوں کہ انبار نہ کھڑے کیجئے،، چمن کہ مُکھی کی خوشبو نہ لیجئے،، چُپ رہنے میں اگر ہے بھلائی، تو دنیا کو ہی خاموش رہنے دیجئے،، مجھ سے پوچھا ہے اکثر مجازیوں نے،، خاموشی کو دیجئے نام کوئی سامان کوئی،، تو سنو،،! فقط آہ لیجئے اور تمام کیجئے،، ؛-(
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain