درد کی اپنی قید سے رہا کر مجھے مر جائوں گا قسم سے جدا نہ کر مجھے پہلے سے ہوں تنہا سا تنہا جہان میں ھے خدا کا واسطہ اور اکیلا نہ کر مجھے دیکھ بے وفائی کا الزام سر نہ دے میرے دیکھ عدو کے سامنے تو رسوا نہ کر مجھے دیکھ پیارکا اپنے راز تو راز رہنے دے اکسا کر زمانے میں تو تماشہ نہ کر مجھے مجھ کو نہیں معلوم حقیقی عشق کا انجان بے خبر ہوں اور دیکھا نہ کر مجھے
تم جاؤ بڑے شوق سے منہ موڑ کے جاؤ افسوس نہیں دل کو مرے توڑ کے جاؤ لیکن جو لٹایا تھا دل و جان سے میں نے اس حسن و جوانی کو یہی چھوڑ کے جاؤ مل کر جو بنائے تھے محبت کے گھروندے اب اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں پھوڑ کے جاؤ دیکھے تھے جو آنکھوں نے مری عشق سے پہلے ٹوٹے ہوئے وہ خواب سبھی جوڑ کے جاؤ روداد ستم ان کی کچھ ایسی لکھو وشمہ اشعار تلک روئیں قلم توڑ کے جاؤ
چار سو انتشار ہے کیا ہے یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے سوا نیزے پہ چاہیے سورج جسم میں برف زار ہے کیا ہے مجھ کو منزل نظر نہیں آتی دور تک رہ گزار ہے کیا ہے کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی میرے اندر مزار ہے کیا ہے ایک پل بھی نہیں مرا اپنا زندگانی ادھار ہے کیا ہے میرے ہمدم ذرا بتا مجھ کو یہ جوانی خمار ہے کیا ہے ہے جو مجھ سے اسدؔ گریزاں سا مصلحت کا شکار ہے کیا ہے
ہزار باتوں پہ ہم اکثر یونہی خاموش ہیں رہتے لوگ کہتے ہیں مغرور اور کبھی پاگل ہیں کہتے یوں تو سنتے ہیں ہر روز بہت اچھے الفاظ بھی مگر ہم لفظوں سے زیادہ لہجے ہیں سمجھتے بات کرتے ہیں سیدھی اور زہر کی مانند ہم باتوں باتوں میں بات نہیں بدلتے خیال رکھتے ہیں رشتوں کے تقد س کا مگر نا قدری کرنے والوں کو ہم دوبارہ نہیں ملتے یہ لوگ جو بن بیٹھے ہیں خدا، سُن لیں ہم رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے