عداوتوں کا حال قربتوں میں سوچیں گے مسافتوں کی تھکن منزلوں میں سوچیں گے خزاں کے ہاتھ مجھے اس نے پھول بھیجا ہے وہ دوستوں میں ہے کہ دشمنوں میں سوچیں گے ملے گا وقت تو فرصتوں میں سوچیں گے منافقت کے یہ لمحے گزر ہی جانے دو رفاقتوں کے زخم ہجرتوں میں سوچیں گے
عداوتوں کا حال قربتوں میں سوچیں گے مسافتوں کی تھکن منزلوں میں سوچیں گے خزاں کے ہاتھ مجھے اس نے پھول بھیجا ہے وہ دوستوں میں ہے کہ دشمنوں میں سوچیں گے ملے گا وقت تو فرصتوں میں سوچیں گے منافقت کے یہ لمحے گزر ہی جانے دو رفاقتوں کے زخم ہجرتوں میں سوچیں گے