کمینے ہوگئے جذبے ، ہوئے بدنام خواب اپنے
کبھی اِس سے کبھی اُس سے محبت ہوگئی آخر۔
کبھی کافر کبھی مجرم بنا شہر منافق میں
سزائے موت لی اس نے یہاں جس نے وفا مانگی
میرے ساتھ وہ رہے گا تو زمانہ کیا کہے گا
میری اک یہی تمنا ، اسے اک یہی بہانہ
عشق وہ کھیل نہیں جو چھوٹے دل والے کھیلیں
روح تک کانپ جاتی ہے صدمے سہتے سہتے
جب سے تم مجھے چھوڑ گئے ہو بیگانے کی طرح
مجھے غموں نے بانٹ لیا ہے خزانے کی طرح
تم ہی بتاؤ کہ کیا کروں میں اس دل کا
ابھی تو بات کی اور پھر سے تم یاد آنے لگے
دل کی ضد ہو تم ورنہ
ان آنکھوں نے بہت لوگ دیکھے ہیں