اسے کہنا کہ دسمبر جا رہا ہے اور دسمبر کی آخری شام ہے اور دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی فضاؤں میں ڈوب جائے گا 🌷اسے کہنا🌷 کہ دسمبر کے گزرنے سے زرا پہلے محبت ک کہانی کو کوئی تکمیل دے جانا 🌷اسے کہنا🌷 چلتا تھا کبھی ہاتھ میرا تھام کر جس راہ پر کرتا ہے یاد وہ راستہ اسے کہنا 🌷اس کہنا🌷 کہ دسمبر کا مہینہ جیسے ہی گزرے گا امیدیں ڈوب جائیں گی وہ سپنے ٹوٹ جائیں گے. 🌷اسے کہنا🌷 کہ دسمبر کے گزرنے سے زرا پہلے محبت کو کوئی تعبیر دے جائے مقدر کو میرے ڈوب جانے سے بچا لے
دسمبر میں چلے آؤ قبل اس کے دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے جسم بے جان ہو جائے تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہو جائے برسوں کی ریاضت سے جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے تمہارے نام کی تسبیح بھلا دیں دھڑکنیں میری یہ دل نادان ہو جائے تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے وہ پھر ویران ہو جائے قبل اس کے دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں شراروں کی طرح بن کر میرا دامن جلا ڈالیں بہت ممکن ہے پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے موسمِ دل بدل جائے یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے قبل اس کے دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں کہ تم ملنے چلے آؤ دسمبر میں چلے آؤ
دسمبر کی رات تھی چھیڑا تھا دل نے ساز ، دسمبر کی رات تھی کوئی نہ تھا همراز ،دسمبر کی رات تھی نہ چودھویں کا چاند نہ تاروں کی کہکشاں جگنو سی اس کی یاد ، دسمبر کی رات تھی نیندوں پہ اس کی یاد نے پہرے بیٹھا دیے سو۔ ہوگئی برسات، دسمبر کی رات تھی دن تو ترے بغیر گزر ہی گیا صنم جو ہوگئی دشوار ، دسمبر کی رات تھی اب وصل ہو کہ ہجر جنوں کو خبر نہیں کر گئی جو دل پہ وار ، دسمبر کی رات تھی وه کون تھا کہاں تھا ملا کیوں بچھڑ گیا بس اتنا رہا یاد دسمبر کی رات تھی _ZaiN_