چارہ گر نے کھیل الٹا کر دیا اک پرانا زخم گہرا کر دیا اس نے بھی پوچھا نہیں پھر کیا ہوا مختصر ہم نے بھی قصہ کر دیا زہر سے لبریز اس ماحول نے آنسوؤں کا رنگ نیلا کر دیا اب ہمیں رونے کی آزادی ملی قہقہوں نے کام آدھا کر دیا آئنے میں بھی نظر آتا ہے تو کیا مجھے بھی اپنے جیسا کر دیا دیکھ مرشد نے ترے بیمار کو قل ھواللہ پڑھ کے اچھا کر دیا کیا غضب کی ہے تری کوزہ گری کیسے کیسوں کو ہی کیسا کر دیا جس کی لو سے جل گیا میرا مکاں اس دیے نے تو اندھیرا کر دیا میں تو ایک انسان ہوں مجبور ہوں تو خدا ہے تو نے یہ کیا کر دیا
نگاہ یار سے ہوتا ہے وہ خمار مجھے کہ رت خزاں کی بھی لگنے لگے بہار مجھے فصیل عشق پہ رکھا ہوا چراغ ہوں میں ہوائے ہجر کا رہتا ہے انتظار مجھے جدائیاں ہیں مقدر تو پھر گلے کیسے لکھے ہوئے پہ تجھے ہے نا اختیار مجھے فقط زباں سے نا کہہ مجھ کو زندگی اپنی میں زندگی ہوں تو اچھی طرح گزار مجھے میں آئنہ تھا کبھی اب تو صرف شیشہ ہوں یہ لوگ دیکھتے رہتے ہیں میرے پار مجھے