دوست کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں ہر نئے موڑ پر اِک زخم نیا دیتے ہیں تم سے تو خیر گھڑی بھر کی ملاقات رہی لوگ صدیوں کی رفاقت کو بُھلا دیتے ہیں کیسے ممکن ہے دھواں بھی نہ ہو اور دل بھی جلے چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں کون ہوتا ہے مصیبت میں کسی کا اے دوست آگ لگتی ہے تو پتے بھی ہوا دیتے ہیں جن پہ ہوتا ہے بہت دل کو بھروسہ تابش وقت پڑنے پہ وہی لوگ دغا دیتے ہیں ✍ تابش دہلوی
ہر وقت یونہی شعر سنائے نہیں جاتے بے وجہ خزانے تو لٹائے نہیں جاتے پانی کی ضرورت ہے محبت کے شجر کو پتھر پہ کبھی پیڑ اگائے نہیں جاتے احساس اگر ہو تو وفا پھولے پھلے گی دستور محبت کے سکھائے نہیں جاتے اپنے تو کسی درد کا احساس نہیں ہے دل میں ہیں سبھی درد پرائے نہیں جاتے اشعار ہیں چہرے پہ محبت کی لکیریں مفہوم مقدر کے چھپائے نہیں جاتے معلوم ہے خوابوں کی حقیقت ہے بکھرنا پھر بھی تو کئی خواب بھلائے نہیں جاتے اچھا ہے بدر اپنی غزل ہو گئی پوری سو بار وہی شعر سنائے نہیں جاتے ✍️ بشیر بدر
(2) یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا جب شہر کےلوگ نہ رستہ ديں،کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا #PaGa_L
’’ابنِ انشاء انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی دروازے میں کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کيا پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا 1