ٹہنی پہ کس کی شجر ی تنہا بلبل تھا کوئ بی اداس یٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اڑنے چگنے میں دن گزارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چ گی یز پہ چھا یا اندھ را سن کر بلبل کی آه و زاری جگنو کوئ ہی پاس ی سے بولا حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے یک ڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا یک ا غم ہے جو رات ہے اندھ یری میم یں راه یں روشن کروں گا یالله نے د ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دی یا بنا ا یہ میں لوگ وہ جہاں یں اچھے آتے ہیں جو کام دوسرں کے