…سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مِدحت خود رب تعالیٰ فرماتا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ ساری کثرت پاتے یہ ہیں ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں اور فرماتے ہیں : اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مَدّاحِ حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسولُ اللّٰہ کی
دنیا میں شیطان کا ساتھی اس طرح ہو گا کہ وہ شیطانی کام کر کے اسے خوش کرے کیونکہ جو شیطان کو خوش کرتا ہے شیطان اس کے ساتھ رہتا ہے حتّٰی کہ کھانے پینے ، رات بسر کرنے اور دیگر کئی معاملات میں شریک ہو جاتا ہے اسی لئے یہ حکم ہے کہ ہر جائز کام بِسْمِ اللہْ پڑھ کر شروع کیا جائے تاکہ شیطان کے لئے روک ہو اورا ٓخرت میں شیطان کا ساتھی ہونا یوں ہوگا کہ وہ ایک شیطان کے ساتھ آتشی زنجیر میں جکڑا ہو گا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱/۳۷۹) یہ وعید خاص گناہوں کے ذریعے شیطان کا ساتھی بننے والے کے بارے میں ہے اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے،اللہ تعالیٰ نے یہ وادی اُمتِ محمدیَہ کے ان ریاکاروں کے لئے تیار کی ہے جو قرآنِ پاک کے حافظ،راہِ خدامیں صدقہ کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے گھر کے حاجی اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے (لیکن یہ سارے کام صرف ریاکاری کیلئے کررہے ہوں گے۔ )([1])(معجم الکبیر، الحسن عن ابن عباس، ۱۲/۱۳۶، الحدیث: ۱۲۸۰۳)
ترجمہ کنزلایمان: اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن کی وحی بھیجی تا کہ تم مرکزی شہر اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو ڈرسناؤ اور تم جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ جس میں کچھ شک نہیں ۔ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں ۔
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جنّتیوں اور جہنمیوں ، ان کی ولدِیَّت،ان کے قبائل حتّٰی کہ ان کی تعداد بھی جانتے ہیں ۔مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ہر جنتی و دوزخی کا تفصیلی علم بخشا، ان کے باپ، دادوں ، قبیلوں اور اعمال پرمُطَّلع کیا،یہ حدیث حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے علم کی تابندہ دلیل ہے جس میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔( مراٰۃ المناجیح، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، الفصل الثانی، ۱/۱۰۳، تحت الحدیث: ۸۹)
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سیدھی راہ چلو اور میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جنّتی کا خاتمہ جنت میں جانے والوں کے اعمال پر ہو گا اگرچہ وہ (زندگی بھر) کیساہی عمل کرتا رہا ہو اور جہنمی کا خاتمہ جہنم میں جانے والوں کے اعمال پر ہوگا اگرچہ وہ (زندگی بھر) کیساہی عمل کرتا رہے،پھر رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا اور ان کتابوں کو رکھ دیا اور فرمایا’’تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بندوں کی تقدیر کو مکمل کر دیا(ان میں سے) ایک جماعت جنّتی ہے اور ایک دوزخ میں جائے گی۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء انّ اللّٰہ کتب کتاباً لاہل الجنّۃ۔۔۔ الخ، ۴/۵۵، الحدیث: ۲۱۴۸)
دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’یہ تمام جہان کے پالنے والے کی طرف سے ایک کتا ب ہے جس میں اہلِ جنت ،ان کے آباء و اَجداد اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں ،آخر میں ان کی مجموعی تعداد درج ہے اور اب ان میں کبھی بھی کوئی کمی یا زیادتی نہ ہو گی۔ پھر بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا’’اس میں اہلِ جہنم ،ان کے آباء و اَجداد اور ان کے قبیلوں کے نام درج ہیں ،آخر میں ان کی مجموعی تعداد لکھی ہوئی ہے اور اب کبھی بھی ان میں کمی یا زیادتی نہ ہو گی ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہمارا انجام لکھا جا چکا ہے تو اب ہمیں عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ ’’ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں ‘‘ اور حدیثِ پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ معلوم ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں داخل ہوگا، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک دن رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست ِمبارک میں دو کتابیں تھیں ،آپ نے فرمایا: ’’کیا تم ان دو کتابوں کے بارے میں جانتے ہو؟ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے بتائے بغیر نہیں جانتے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دائیں ہاتھ والی کتاب
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain