ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانا دل کا نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تھاشہ خوشی دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانا دل کا وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے “ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا
جب کوئی اچھی باتیں کرتا ھے تو ھم اسے اچھا تصور نھی کرتے ۔۔۔ ھمیں لگتا ھے وہ دکھاوا کرنے کے لیے اچھی باتیں کر رھا ۔۔۔ لیکن جب کوئی بری باتیں کرتا ھے تو ھم اسے برا تصور کر لیتے ھیں ۔۔۔۔۔ اچھا کس کو سمجھیں اور برا کس کو ۔۔۔ یہ سائیکولوجی کہوں یا فلسفہ کہوں یا علم کا کوئی خلا بولوں ۔۔۔سمجھ سے باھر ھے ۔۔معیار کیا ھے اور اس پہ پورا کیسے اترا جائے آج تک سمجھ نھی آئی
رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے اسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے نہیں شکایتِ ہجراں کہ اس وسیلے سے ہم اُن سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے وہ دن کہ کوئی بھی جب وجہِ انتظار نہ تھی ہم اُن میں تیرا سوا انتظار کرتے رہے ہم اپنے راز پہ نازاں تھے ، شرمسار نہ تھے ہر ایک سے سخنِ راز دار کرتے رہے ضیائے بزمِ جہاں بار بار ماند ہوئی حدیثِ شعلہ رخاں بار بار کرتے رہے انھیں کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے فیض احمد فیض