کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو مت نکلنا کہ ڈوب جاؤ گے خوں ہے بس، خوں ہی خوں، ذرا ٹھہرو
آدمی وقت پر گیا ہوگا وقت پہلے گزر گیا ہوگا وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی کوئی احسان دھر گیا ہوگا خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں آج ہر شخص مر گیا ہوگا شام تیرے دیار میں آخر کوئی تو اپنے گھر گیا ہوگا مرہم ہجر تھا عجب اکسیر اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا