خود کو جینے کی تسلی میں بہانے نہیں دیتا اب تیری یاد بھی آئے تو میں آنے نہیں دیتا یہ تیرا ظرف ہے تُو لوٹ کے آیا ہی نہیں یہ میرا ظرف ہے پھر بھی تجھے طعنے نہیں دیتا#
رہے گا عشق ترا خاک میں ملا کے مجھے کہ ابتدا میں ہوئے رنج انتہا کے مجھے دیئے ہیں ہجر میں دکھ درد کس بلا کے مجھے شبِ فراق نے مارا لٹا لٹا کے مجھے بغیر موت کے کس طرح کوئی مرتا ہے یقیں نہ آئے تو وہ دیکھ جائیں آ کے مجھے.