مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا