قصّہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا۔۔ میں " آپ "، وہ " جناب " سے آگے نہیں بڑھا۔۔ مدّت ہوئی کتابِ محبت شروع کئے، لیکن میں پہلے باب سے آگے نہیں بڑھا۔۔ لمبی مسافتیں ہیں مگر اس سوار کا، پاؤں ابھی رقاب سے آگے نہیں بڑھا۔۔ لوگوں نے سنگ و خشت کے قلعے بنا لئے، اپنا محل تو خواب سے آگے نہیں بڑھا۔۔ وہ تیری چال ڈھال کے بارے میں کیا کہے، جو اپنے احتساب سے آگے نہیں بڑھا۔۔ رخسار کا پتہ نہیں، آنکھیں تو خوب ہی...