بن سوچے سمجھے کیسے اقرار کر لوں کسی اجنبی سے اپنی نگاہیں چار کر لوں مانا کہ جان چھڑکتا ھے وہ ہم پر مرتا ھے۔ مگر اتنی جلدی اے دل کیسے اعتبار کر لوں؟ پیار سے اپنی برسوں پرانی دشمنی ھے۔۔۔ آہ ! پھر سے کیسے میں زندگی آزار کر لوں؟ اسد اس کی نییت پر کوئی شک نہیں لیکن۔ آخر وہ اجبنی ھے پھر کیسے اعتبار کر لوں؟
سننی ہے یہ کہانی تو تھام لو دل لوگ ہوتے ہیں بے حس جان لو پھر ان کے لیے یہ دنیا نہیں دینداری ہے؛ ان کو دھوکا دینے کی بیماری ہے؛ کیا بتاؤں انکی دل کی نفرتیں؛ جھجکتے ہیں یہ لب؛ رکھتے ہیں تعلق بس جہاں تک ہو مطلب؛ چہرے پر مسکراہٹیں٫ دل میں ہے نفرتوں کے بزار؛ جلنا؛حوس بن گیا ہو جیسے انکا مزار؛ ہیں چہرے پر انکے نقاب؛ چالیں ہیں انکی لاجواب؛ نہ ہو بیاں جو ایسی ہے میری کہانی؛ !!یہ آج کل کے لوگوں کی ہے دنیا روانی